یوم آزادی پر مضمون | یوم آزادی پر تقریر | Youm e Azadi par Mazmoon in Urdu
یوم آزادی پر تقریر.
15 اگست کی تقریر: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِين وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَى النَّبِيِّ الْاَمِين، وَعَلٰى آلهٖ وَصَحْبِهٖ اَجْمَعِينَ، إِلٰى يَوْمِ الدِّيْن، اَمَّا بَعْد! فأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيمِ بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيهِ شُرَكَآءُ مُتَشَٰكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ۔صَدَقَ اللهُ الْعَظِيْم۔
خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں، تو کچھ بھی نہیں
یوم آزادی پر مضمون
سامعین کرام! حاضرین جلسہ، عزیزان گرامی قدر اور فرزندان اسلام! آج پندرہ اگست ہے، پندرہ اگست کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ میرے محترم دوستو! ( 15 اگست یوم آزادی ) یہ تاریخ ایسی تاریخ ہے جس میں ہزاروں خونی داستانیں ، سینکڑوں خوفناک واقعات، لاکھوں دردناک کہانیاں اور بے شمار الم انگیز باتیں پوشیدہ ہیں۔
ہمارا ملک ہندوستان جس پر مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی ، عدل وانصاف کی حکومت، پیار ومحبت کی حکومت، الفت وعقیدت کی حکومت ،لیکن انصاف کا دامن مسلمانوں کے ہاتھ سے چھوٹ گیا، پیار ومحبت کے الفاظ مسلمانوں نے بھلا دیے ،الفت وعقیدت کی عداوت وبغض کی پرچھائیں آ گئیں تو اس ملک میں انگریزوں نے قدم رکھا۔
پہلے پہلے تجارت شروع کی،ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ہندوستان میں اپنی اقتصادی حالت خوب مضبوط کی ، پھر کیا تھا، پیسے کی ریل پیل،سیاست میں دخیل ہونا آسان ہو گیا ۔ دھیرے دھیرے سیاست میں ایسا دخیل ہوئے ، کہ حکومت کی کرسی پر بھی قبضہ ہو گیا۔ اب کیا تھا، ہندوستان کا کوئی شعبہ، کوئی ڈپارٹمنٹ اور کوئی سیاسی وسماجی تنظیم ایسی نہ بچ پائی تھی جس میں انگریز نہ ہوں۔ ہر شعبے، ہر تنظیم ، ہر ڈپارٹمنٹ میں اعلی عہدے پریہ انگریز ہی بیٹھا ملتا تھا۔ ( یوم آزادی مضمون )
جب انگریزوں نے اپنا مکمل تسلط ہندوستان پر جمالیا، تو اسے یہ بات سوجھی ، کہ یکساں سوِل کوڈ کے طور پر پورے ہندوستان کے ہر ہر شہر میں، ہر ہر گاؤں اور آبادی میں عیسائیت کا قانون نافذ کیا جائے ۔ کوئی گھرانہ، کوئی گھر، کوئی بچہ ایسا نہ بچے ، کہ جس کو عیسائیت سے پیار نہ ہو۔
پورے ہندوستان میں عیسائیت کا پرچم لہرانے ، ہر گھر سے عیسی مسیح کی منسوخ تعلیم پر عمل کرانے اور ہر ہر خرد وکلاں کو اس پر مجبور کرنے کے لیے انگریزوں نے ایڑی چوٹی تک کا زور لگادیا۔(15 اگست پر تقریر)
مسلمانوں کو یہ چیز آخر کیسے برداشت ہوسکتی تھی ،مسلمان تو صرف خدا وحدہ لاشریک کا بندہ ہے ، عیسائیوں کے یہاں تین خدا ہیں، جسے قرآن کریم نے ثَالِثُ ثَلٰثَہْ کہ کر بتایا ہے ۔مسلمان اپنے توحید کے عقیدے کو کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ مسلمان ایک خدا کو چھوڑ کر تین خداؤں کی ناز برداری کیسے کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کو تو یہ منظور ہے، کہ دہکتی آگ کے شعلے آسمانوں کی بلندی کو چھورہے ہوں اس میں ڈھکیل دیا جائے ، تو مسلمان اس میں ہزار خوشیوں کے ساتھ کود پڑے گا لیکن خدا کے ساتھ کفر نہیں کرسکتا۔ ایک خدا کے ساتھ تین اور خداؤں کر ملاکر مشرک نہیں بن سکتا ۔ مسلمان کا قرآن اعلان کر چکا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ ۔ اللہ تعالیٰ شرک کو کبھی معاف نہ کرے گا، اس کے علاوہ ہر چھوٹی بڑی غلطی جس کی بھی چا ہے جب چا ہے معاف کر دے گا۔
یہ قرآن مسلمانوں کا ہی قرآن نہیں ، پوری دنیا کا قرآن ہے۔ مسلمان عیسائیوں کو بھی دعوت دیتے ہیں، کہ تم بھی شرک کے اندھیاروں سے نکل کر اسلام کی تابناک روشنی میں آجاؤ۔ تَعَالَوْاْ إِلَى كَلَمَةٍ سَوَاء بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا ۔
ترجمہ اے یہود ونصاری ! تم بھی ایک ایسے کلمے کی طرف آجاؤ جو تمہاری کتاب میں بھی ہے، ہماری کتاب میں بھی ہے۔ کہ کلمہ توحید اور خدا وحدہ کو ایک ماننے کا عقیدہ بنالو، اور اس کے ساتھ شرک نہ کرو۔
ان حالات وواقعات کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کے لیے یہ ایک زبردست چیلنج تھا، کہ وہ ہندوستان پر ظالمانہ طور پر قابض انگریز کی دعوت پر لبیک کہیں ۔ پورے ہندوستان میں عموما، اور مسلمانان ہند میں خصوصا ایک افراتفری کا ماحول تھا۔
اتنے میں انگریز نے یہ حکم بھی صادر کر دیا کہ سرکاری نوکری اگر کرنا ہے تو مسلمان بن کر یا غیر عیسائی بن کر نہیں کر سکتے۔ سرکاری ملازم کو عیسائی بن کر ہی ملازمت پر باقی رکھا جاسکتا ہے۔
یہ اعلان پورے غیر منقسم ہندوستان میں بجلی کی طرح پھیل گیا، اور جنگل کی آگ کی طرح گاؤں گاؤں بستی بستی ،قریہ قریہ اس کا چرچہ ہونے لگا۔اب کیا تھا، دین اور دنیا کا معاملہ تھا،اگر دنیا اپنا لیتے ہیں تو دین سے ہاتھ دھونا پڑے گا ،اگر دین پر رہتے ہیں تو دنیا جاتی ہے ۔ فیصلہ کیا کریں، کیوں کریں اور کیسے کریں؟
اس نازک موڑ پر امت محمدیہ کے علماء صالحین آگے بڑھ کر ایک زبردست فتوی صادر کرتے ہیں ، کہ اس نازک گھڑی میں کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں بلکہ بالکل حرام ہے، کہ وہ انگریزی حکومت میں ملازمت کریں۔
یہ فتوی کیا تھا، دین کے بقا کا پیغام ۔ اسلام پر جمے رہنے کا اعلان، سنت کے نہ چھوڑنے کی تاکید ۔
یک لخت مسلمانوں نے اپنے ملازمتوں پر لات مار دی ، اور بے دست وپا اپنے گھروں کولوٹ آئے ، اب کیا تھا، وہ تھے اور ان کا خدا اور کوئی نہیں ، بڑا دردناک حال تھا۔ایک ملازم مسلمان ہے، اس کے بال بچے ہیں ، وہ برسر روزگار ہے۔ روزانہ کا لمبا خرچ ہے۔ یک لخت روزی بند ہو جائے ، کاروبار ٹھپ پڑ جائے تو کیا گزرے گی؟ لیکن جب مسلمانوں کے ساتھ کوئی نہیں تھا، نہ کاروبار، نہ ملازمت، نہ مددگار، نہ اعیان وانصار تو صرف اور صرف اللہ کی ذات تھی ۔ جس نے مسلمانوں کو دلاسہ دیا کہ گھبراؤ نہیں۔(15 اگست پر مضمون)
لَا تَحْزَنُواْ وَأَنتُمُ ٱلْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔
اللہ تعالی نے مدد کی ،مسلمانوں کا دین بچایا، زندگی کی حفاظت فرمائی ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے جہاد کا فتوی صادر فرمایا، پورے ہندوستان میں جہاد کے سلسلے میں لڑائیاں چھڑ گئیں، شاملی کے میدان میں مولانا محمد قاسم نانوتوی ، بانی دارالعلوم دیوبند نے انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ ہزاروں لاکھوں علما نے آزادی ہند اور حفاظت دین کی خاطر اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر سر پر کفن باندھ کر میدان کارزار میں اتر آئے کہ
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اورلڑائیاں کیں ، حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے جام شہادت نوش کیا۔ مولا نا جعفر تھانیسری نے جنگ میں اہم رول ادا کیا ، حضرت شیخ الہند نے ریشمی رومال کی تحریک چلائی ۔ محمد علی جو ہر نے غلامِ ملک چھوڑ دیا ، حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ نے رات دن ایک کیا۔ تب جا کر کہیں ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء کی صبح نمودار ہوئی ۔(15 اگست کی تقریر)
خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
یہ ہے ۱۵/اگست کی صبح ، آزادی کی صبح ، (یوم آزادی مبارک) جس میں ہم آزادی کے ساتھ ایک خدا کے بندے رہ سکتے ہیں ۔اتنی جانفشانیوں کے بعد ہمیں یہ آزادی ملی ہے تو ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔اپنے دین پر پوری آزادی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔ اپنے عقائد واحکامات پر خدا کی توفیق مانگ مانگ کر عمل پیرا رہنا چاہیے۔ ورنہ اگر ہم نے اس آزادی کی ناشکری کی تو خدا وہ دن بھی لائے گا جب ناشکری کے سبب ہماری موجودہ آزادی بھی چھنی جائے گی ۔اور چھٹی جا بھی رہی ہے ۔ ہمیں آزادی کی خوشی اسی وقت مل سکتی ہے جب ہم اپنے پرانوں کے چراغ جلا جلا کر روشنی حاصل کریں گے۔ ( 14 اگست یوم آزادی پاکستان )
جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تو نے
وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی
وَآخِرُ دَعْوَاناْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ۔
نوٹ : اس تقریر کی ( pdf) فائل ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔
26/ جنوری یوم جمہوریہ پر بہترین تقریر
Leave a Comment جواب منسوخ کریں
اس براؤزر میں میرا نام، ای میل، اور ویب سائٹ محفوظ رکھیں اگلی بار جب میں تبصرہ کرنے کےلیے۔
یومِ آزادی کا پیغام نوجوانوں کے نام: 14 اگست پر تقریر
- سعید عباس سعید
- 12 اگست 2022
یوم آزادی پاکستان: 14 اگست پر اردو تقریر
صاحب صدر اور میرے عزیز ہم مکتب ساتھیو!
السلام علیکم! ہم آج وطن عزیز کی سالگرہ کے پرمسرت موقع پر یہاں جمع ہوئے ہیں ۔۔۔ اور مجھے جس موضوع پر لب کشائی کرنے کا موقع دیا گیا ہے وہ ہے "جشن آزادی اور ہم"...! صاحب صدر! میرے لیے 14 اگست محض ایک تاریخ نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ 14 اگست وہ امانت ہے جو میرے پورکھوں نے لاکھوں قربانیاں دینے کے بعد میرے حوالے کی ہے ۔۔۔ اور مجھے بنا کسی قربانی کا دریغ کیے اسے اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے ۔۔۔ 14 اگست وہ تشخص ہے جو مجھے ساری دنیا سے جدا مقام دیتا ہے ۔۔۔ 14 اگست وہ سحر ہے جس کی تلاش میں کئی ستارے ڈوب گئے ۔۔۔ 14 اگست وہ پیغام ہے جسے مجھ تک پہچانے کے لیے نجانے کتنے قاصد راستوں کی دھول ہو گئے ۔۔۔ کتنے دل ملول ہو گئے اور کتنے اشک بے مول ہو گئے ۔۔۔ میرے لیے 14 اگست محض ایک تاریخ نہیں ہے ۔
ملا نہیں وطنِ پاک ہم کو تحفے میں جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا جناب صدر! 14 اگست کا دن میرے سال کے تین سو پینسٹھ دنوں کا سردار دن ہے ۔۔۔ یہ دن ہے تو میری عیدیں ہیں ۔۔۔ یہ دن ہے تو میری خوشیاں ہیں ۔۔۔ یہ دن ہے تو سب بہاریں ہیں ۔۔۔ یہ دن ہے تو سب نظارے ہیں ۔۔۔ میری زندگی ، میری بندگی ، میری دلکشی ، میری تازگی ، میری روشنی، میری آگہی ، میری شاعری ، میری موسیقی و مصوری ۔۔۔ سب کچھ ہے ۔۔۔ اگر یہ دن میرے مقدر کی پیشانی پر کندہ ہے!
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اِس خا ک سے ہے جناب صدر! یہ مملکت خداد محض ایک ملک نہیں ہے ۔۔۔ یہ حضرتِ اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہے ۔۔۔۔ یہ قائد اعظم کے سارے جذبوں کی تصویر ہے ۔۔۔ یہ کاتب تقدیر کی اک انمٹ سی تحریر ہے ۔۔۔ میری سانس پاکستان ہے ۔۔ میری آس پاکستان ہے۔۔۔ احساس پاکستان ہے ۔۔۔ صد شکر ہے میرے مولا کا۔۔۔ میرے پاس پاکستان ہے۔۔۔ اسی انمول تحفے کے لیے رب ذوالجلال کا شکر ادا کرنے کو یہ دن منایا جا رہا ہے جسے جشن آزادی یا یوم آزادی کا نام گیا ہے۔ صاحب صدر! آج کے دن ہمیں اپنے آباء و اجداد کی بےمثال قربانیوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرنا ہے اور اس بے پایاں رحمت ایزدی پر سجدہ شکر بھی ادا کرنا ہے ۔۔۔ ہمیں ان ماؤں کے بیٹوں کو خراجِ محبت پیش کرنا ہے جہنوں نے اس دیس کے چپے چپے ۔۔۔ گوشے گوشے سے یہ عہد کیا تھا کہ: خون دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے! اپنی گفتگو کے آخر میں مَیں بصد رنج و ملال یہ عرض کرنا چاہوں گا/ گی کہ وطن عزیز اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ۔۔۔ کچھ ہماری اپنی نادانیاں ہیں اور کچھ دشمنوں کی ریشہ دوانیاں ۔۔۔ ہر طرف بھوک ، افلاس کے ڈیرے ہیں ۔۔ گھمبیر اندھیرے ہیں ۔۔۔ بڑی دور سویرے ہیں ۔۔۔ صنعت و حرفت ، معیشت، تجارت ۔۔ ہر شعبہ خسارے میں ہے ۔۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے ۔۔۔ سیاسی ، لسانی اور مذہبی اختلافات نے شدت پسندی کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔۔۔۔ لیکن میرے عزیزو! ہمیں پھر ابھرنا ہے ۔۔۔ اپنی آن بان کی خاطر ۔۔۔پھر اپنی پہچان کی خاطر ۔۔۔ پیارے پاکستان کی خاطر ۔۔۔ یاد رکھیے! ہم کو یہ شعلے نہیں ، چاہت کی شبنم چاہئے ہم کو یہ خنجر نہیں ، زخموں کا مرہم چاہئے مستقل نفرت کے بدلے ، عشقِ پیہم چاہئے متحد ہوکر جئیں ، تو ایک طاقت ہم بھی ہیں گر سلامت یہ وطن ہے ، تو سلامت ہم بھی ہیں
متعلقہ عنوانات
- پاکستان کے 75 سال
- جشن آزادی پر تقریر
- یوم آزادی پر تقریر
- تقریر 14 اگست پر
اسی بارے میں
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خانؒ: ان کی زندگی پر ایک نظر (ٹائم لائن)
پاکستان کی پچھترویں سالگرہ پر 75 روپے کا یادگاری نوٹ جاری
پاکستان کے 75 برس: پاک بحریہ کی عسکری صلاحیت کتنی ہے؟
ذرا سوچیے! 14 اگست ہمیں کیا پیغام دے گیا؟
جشنِ آزادی مبارک: پاکستان کا قیام کیوں ضروری تھا؟
قومی ترانہ 68 برس بعد نئی دھن کے ساتھ ریکارڈ: جشن آزادی مبارک
سعید عباس سعید سے متعلقہ.
یوم اقبال: کیا علامہ اقبال وطن پرستی کے مخالف تھے؟ اقبال کا تصورِ وطنیت
جون ایلیا ایک حیرت انگیز شاعر: جون ایلیا کی بیسویں برسی پر ان کی شاعری کا انتخاب
یوم اقبال : علامہ اقبال کے بارے میں 7 دلچسپ حقائق جو بہت کم لوگ جانتے ہیں
علامہ اقبال کے شخصیت کے 5 دلکش رنگ: مکاتیبِ اقبال کی روشنی میں
اسلام اور سائنس: علامہ اقبال کی تصنیف "اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل نو" کی روشنی میں
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ: یوم اقبال کے حوالے سے تقریر
- ہمیشہ یاد رکھنا کہ مزاحمت فضول کام نہیں ہے، یہ محض ایک گولی نہیں ہے جو چلادی جائے
- میں نہ ٹوٹا نہ بکھرا ، نہ دل شکستہ ہوا
- میں دیکھ رہا ہوں کہ میں جنت میں رسول اکرمﷺ کے سامنے کھڑا ہوں
فیچر اور تجزیے
کیا اسلام مغرب کا دشمن ہے؟ از تمارا سن
سب سے زیادہ پڑھی جانے والی.
یومِ آزادی پر ایک تقریر
Back to: اردو تقاریر | Best Urdu Speeches
معزز اساتذہ، پیارے ساتھی طلباء و طالبات، السلام علیکم
آج ہم سب یہاں اپنے پیارے وطن بھارت کی آزادی کی 78ویں سالگرہ منانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ 15 اگست 1947 کا دن ہماری تاریخ کا ایک یادگار دن ہے، جو ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔ اس دن ہماری قوم نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی سانس لی، اور ایک نئی صبح کا آغاز ہوا۔ آج ہم اُن تمام شہیدوں اور مجاہدین آزادی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ہمیں آزاد وطن عطا کیا۔
آج کے دن ہمیں اُن عظیم رہنماؤں کی قربانیوں اور جدوجہد کو یاد کرنا چاہیے جنہوں نے ہمیں آزادی دلانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر بے شمار مجاہدین آزادی نے سخت محنت، قربانیوں، اور عزم و ہمت سے بھرپور جدوجہد کے بعد ہمیں آزادی دلائی۔ آج کا دن اُن کی خدمات اور قربانیوں کو یاد کرنے، اُن سے سبق حاصل کرنے اور اُن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا دن ہے۔
آزادی ایک نعمت ہے، جو محض ایک دن کی خوشی نہیں بلکہ ایک ذمہ داری کا احساس بھی ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی کی حفاظت اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ آزادی کا مطلب صرف اپنی مرضی سے زندگی گزارنا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ذمہ داریاں بھی وابستہ ہیں۔ ہمیں اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کرنا ہے، تاکہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ایک بہتر مستقبل دے سکیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داریاں بھی آتی ہیں، اور ہمیں ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔
بطور طلباء ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دیں، نئے علوم اور ہنر سیکھیں، اور اپنے ملک کو دنیا میں ایک عظیم قوم بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں اپنے اساتذہ کی رہنمائی میں علم و ہنر حاصل کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنی قوم کی خدمت کر سکیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ علم ہی وہ طاقت ہے جو قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔
ہمارے ملک کی ترقی صرف ہمارے علم و ہنر پر ہی منحصر نہیں ہے، بلکہ ہمیں اپنے معاشرتی فرائض بھی نبھانے ہوں گے۔ ہمیں فرقہ واریت، ذات پات، اور مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک متحد قوم بننا ہے۔ ہمیں سب کے ساتھ مساوی سلوک کرنا ہے اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا ہے۔ یہ ہماری قومی یکجہتی اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ایک قوم کی ترقی اُس وقت ممکن ہے جب اُس کے لوگ متحد ہوں اور آپس میں محبت و بھائی چارہ قائم رکھیں۔ ہمیں ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔
اس کے علاوہ، ہمیں ماحول کی حفاظت پر بھی خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ آج کل کے دور میں ماحولیاتی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو نہ صرف ہمارے ملک بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہمیں اپنی زمین، پانی اور ہوا کو صاف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں ایک صحت مند ماحول میں جی سکیں۔ ہمیں درخت لگانے، پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنے، اور توانائی کے متبادل ذرائع اختیار کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اگر ہم اپنے ماحول کی حفاظت نہیں کریں گے تو ہماری آئندہ نسلیں اس کے منفی اثرات کا شکار ہوں گی۔
ہمارے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آئین اور قوانین کا احترام کریں۔ قانون کی پاسداری اور انصاف کا قیام ہمارے معاشرے کی مضبوط بنیادیں ہیں۔ ہمیں اپنے فرائض اور حقوق کو سمجھنا ہوگا اور اپنے ملک کی خدمت میں پیش پیش رہنا ہوگا۔ قانون کی پاسداری سے ہی ایک مضبوط اور مستحکم معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے ملک کے قوانین کی پابندی کریں گے اور انصاف کی فراہمی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔
آزادی کے اس دن پر ہمیں اپنے معاشرتی، سیاسی، اور اقتصادی مسائل پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم نے آزادی کے بعد اب تک کیا حاصل کیا ہے اور ہمیں مزید کیا کرنا باقی ہے۔ ہمارے ملک کو ابھی بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے جیسے کہ غربت، بیروزگاری، اور ناخواندگی۔ ہمیں ان مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ ہم سب کو اپنی ذمے داریوں کو سمجھنا ہوگا اور اپنے ملک کی خدمت کے لیے ہمیشہ تیار رہنا ہوگا۔
ہمیں اپنی نئی نسل کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ ہمیں اُنہیں ایک بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ ہمیں اُنہیں بتانا ہوگا کہ آزادی کتنی قیمتی چیز ہے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کیا کیا قربانیاں دی گئی ہیں۔ ہمیں اُنہیں علم، ہنر، اور اخلاقیات کی تعلیم دینی ہوگی تاکہ وہ ملک کے ذمہ دار شہری بن سکیں۔
آخر میں، میں آپ سب کو 15 اگست کی دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ آئیں، ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنے وطن کی خدمت کریں گے، اس کی عظمت کو برقرار رکھیں گے، اور اسے دنیا کا بہترین ملک بنائیں گے۔ ہمیں اپنے ملک کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی قوم کی خدمت کریں گے اور اُس کے لیے ہمیشہ کھڑے رہیں گے۔ ہمارا مقصد صرف اپنی ذاتی کامیابیاں حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں اپنے ملک کے مفاد کو ہمیشہ مقدم رکھنا چاہیے۔
شکریہ، جے ہند!
تحریر | تحسینہ ماوینکٹی بنگلور ، کرناٹک (انڈیا) |
یوم آزادی پر تقریر – Speech on Youm e Azadi in Urdu
ہندوستان کا وفادار کون؟
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلوة والسلام على سيد الْمُرْسَلِينَ وَ عَلَى الِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ أَمَّا بَعْدُ قَالَ النَّبِي صلی الله علیہ وسلم إِنَّمَا الْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ أَوْ كَمَا قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامِ
وہ سن کے آجائے تاریخ کو پسینہ
تیرا دیا کسی نے مرے خون میں سفینہ
بھارت کے شیر کتنے مرے خون میں نہائے
ٹوٹا مرے لہو میں کتنوں کا آبگینہ
کچھ لوگ میرے خون سے ہولی منارہے تھے
کچھ لوگ بھر رہے تھے مرے خوں سے آبگینہ
صحرا میں جا کے چھلکا میرے لہو کا ساغر
انصاف مانگنے کی ایسی صدا کہیں نا
حضرات گرامی ! مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہمارا یہ ہندوستان جنت نما ہے۔ جس کی گود میں گنگا جمنا کی روانی ہے کو سی اور ستلج کی جوانی ہے۔ لال قلعہ اور جامع مسجد کی مضبوطی وپاکیزگی ہے، (14 اگست پر تقریر)
تاج محل کی خوبصورتی ہے ، اونچے اونچے پہاڑ ہیں، من موہن جھیل اور آبشار ہیں، مختلف مذہب و ملت، دین و دھرم کے ماننے والے ہیں، کوئی ایک خدا اور پر میشور کی عبادت کرتا ہے۔ تو کوئی سینکڑوں دیوی دیوتاؤں کے آگے سر جھکاتا ہے۔ کوئی پتھروں کو پوجتا ہے تو کوئی درختوں کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرتا ہے۔ کوئی گاؤ ماتا کہہ کر اس کو بھگوان کا درجہ دیتا ہے تو کوئی فوٹو اور تصاویر کے سامنے اپنے ہر دے کو شانتی پہونچاتا ہے۔
اس دھرتی نے جہاں بڑے بڑے بانہوں کو جنم دیا ہے وہیں ہزاروں تاریخ ساز علماء، صلحا، عباد، زیاد، کی پرورش و پرداخت کی ہے۔ ہم بھی اسی دیش کے اندر پیدا ہوئے ہیں اس کی مٹی نے ہماری پرورش و پرداخت کی ہے۔ تہذیب و شائستگی کا اعلی معیار عطا کیا ہے ہم کو اس ملک کے ذرے ذرے سے پیار ہے اس کی مٹی اور سبزے سے پیار ہے۔ اس کے اونچے اونچے پہاڑ اور وسیع و عریض صحراؤں سے پیار ہے۔ اس کے جھیلوں اور آبشاروں سے پیار ہے۔ اس کے مساجد و مدارس سے پیار ہے۔ اس کے محلات و قلعات سے پیار ہے۔
اسی لئے اس کی عصمت و عفت کی حفاظت کو ہم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اس کی گود کی رکچھا کو اپنا دھرم تصور کرتے ہیں، اس کے ذرے ذرے کی صیانت کو اپنا ایمان گردانتے ہیں کیوں کہ جس مذہب کے ہم ماننے والے ہیں جن قوانین کے ہم پیرو ہیں اس نے ہمیں بے وفائی نہیں بلکہ وفاداری کا سبق دیا ہے۔ احسان فراموشی نہیں احسان شناسی کا سبق دیا ہے اس نے ہمیں بزدلی نہیں بلکہ حوصلہ دیا ہے۔ اس نے ہمیں لومڑی کی عیاری نہیں بلکہ شیر کا دل عطا کیا ہے، اس نے ہمیں تلوار کے سایے میں جینا سکھایا ہے اس نے ہمیں جفاکشی کی مشق کرائی ہے۔ اس نے ہمیں تو پوں اور ٹینکوں سے ٹکرانے کا حوصلہ دیا ہے۔ 14 اگست یوم آزادی پاکستان تقریر
ارے سر زمین مکہ سے پوچھ لو، سر زمین مدینہ ہے پوچھ لو، مصر و شام سے پوچھ لو، روس و ایران سے پوچھ لو، روم و فارس سے پوچھ لو، اندلس وا پسین سے پوچھ لو کہ کیسی کیسی وفاداری کا ثبوت ہم نے پیش کیا ہے، جب ہم مکہ میں تھے تو مکہ کے ساتھ وفاداری کی تھی۔ مدینہ میں تھے تو مدینہ کے ساتھ وفاداری کی تھی، مصر میں تھے تو مصر کے ساتھ وفاداری کی تھی، شام میں تھے تو شام کے ساتھ وفاداری کی تھی، روس و ایران میں تھے تو روس و ایران کے ساتھ وفاداری کی تھی، روم و فارس کے ساتھ تھے تو روم و فارس کے ساتھ وفاداری کی تھی، اندلس واسپین میں تھے تو اندلس واسپین کے ساتھ وفاداری کی تھی،
اور جب ہم اپنے اکابرین کی شکل میں اسی ہندوستان اور بھارت میں تھے تو اس وقت ہم نے تو ایسی ایسی وفاداری کا ثبوت پیش کیا کہ دنیا حیران و ششدر ہے ، اسی بھارت کے عصمت کی حفاظت کی خاطر ہم نے گولیاں کھائیں، تو ہوں اور ٹینکوں کے نشانے بنے ، پھانسی کے پھندوں پر چڑھنا پڑا، جیلوں کی مشقتوں کو برداشت کیا نذر آتش کر دئے گئے۔
اے سر زمین ہند سُن! اور غور سے سُن۔ میں اپنی وفاداری کی روداد سنانے جارہا ہوں۔
آج کی بد حال دنیا کے بھی دن پھر جائیں گے اسے مؤرخ ہم اگر تاریخ دہرانے اٹھے جب ہندوستان کی سرزمین میں انگریزوں کا ناپاک سایہ پڑا، اور وہ اپنی شاطرانہ و عیارانہ چالوں سے یہاں کے مالک بن بیٹھے۔ جب باشندگان ہند پر طرح طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔ جب ہندوستان کو غلام بنایا جانے لگا جب ہندوستانیوں کا خون ان کے پسینوں سے بھی ارزاں ہونے لگا، تو ایسے نازک دور میں سب سے پہلے جس نے علم بغاوت بلند کیا۔ وہ محدث کبیر ، نازشن وطن شاہ عبد العزیز بن ولی اللہ محدث دہلوی ہیں۔ شاہ عبد العزیز کا فتویٰ کیا تھا گویا ایک برق تپاں تھا جو دشمنوں کے نخل تمنا پر گر پڑی۔ انگریز کی نیندیں حرام ہو گئیں جگہ جگہ آزادی کے شعلے بھڑ کنے لگے جگہ جگہ آزادی کے پرچم لہرانے لگے ، بینوں میں ولولے چلنے نگے اور حوصلوں نے انگڑائیاں لینی شروع کر دیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ہندوستان کی جنگ آزادی میں علماء کرام شریک نہیں ہوتے تو ہندوستان کبھی آزاد نہیں ہوتا۔ اگر یہ سر حیل آزادی نہ ہوتے تو تحریک آزادی نہ چلتی۔ تحریک بالا کوٹ نہ چلتی، تحریک ریشمی رومال نہ چلتی، تحریک خلافت نہ چلتی، ہندوستان چھوڑو تحریک نہ چلتی ، مقدمہ وہا بیان نہ چلتا، انبالہ سازش کیس نہ بنتا۔ الغرض علماء کرام ہی نے اپنے خون جگر سے عروس آزادی کی حنا بندی کی ہے۔ اور اپنے مقدس لہو سے شجر آزادی کو سینچا اور پروان چڑھایا ہے۔ چنانچہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں دو محاذ بنائے گئے۔
ایک محاذ انبالہ جس کی قیادت مولانا جعفر تھانیسر کی کے پاس تھی اور دوسرا محاذ شاملی پر ، جس کی قیادت حضرت حاجی امد اللہ مہاجر مکی کے پاس تھی۔ اس جنگ میں بڑے بڑے علماء و صلحا شہید ہوئے۔ اسی جنگ میں مولانا نانا توی زخمی ہوئے۔ اسی جنگ آزادی میں مولانا گنگوہی زخمی ہوئے۔ اسی جنگ میں حافظ ضامن شہید ہوئے۔ اس ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی بین دو لاکھ مسلمان شہید ہوئے جن میں ساڑھے اکیاون ہزار علماء کرام تھے۔ صرف دہلی کے اندر پانچ سو علماء کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔ ۱۸۶ء میں تین لاکھ قرآن کریم کے نسخے کو بد بخت انگریزوں نے جلا ڈالا۔ اسی کے بعد ہی سے علماء کرام کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔(یوم آزادی ہند پر تقریر)
انگریز مؤرخ ٹامسن لکھتا ہے کہ ۱۸۷۴ء سے لے کر ۱۸۶۶ء تک اس تین سالوں میں انگریز نے چودہ ہزار علماء کو تختہ دار پر لٹکایا۔ ٹامسن کہتا ہے کہ ولی کی چاندنی چوک سے لے کر پشاور کی جامع مسجد تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں۔ ٹامسن کہتا ہے کہ علماء کے جسموں کو تانبے سے داغا گیا۔ ٹامسن کہتا ہے کہ علماء کو سوروں کی کھالوں میں بند کر کے تنوروں میں ڈالا گیا ٹامسن کہتا ہے کہ علماء کو ہاتھیوں پر کھڑا کر کے درختوں سے باندھ کر نیچے سے ہاتھیوں کو چلا دیا گیا۔ ٹامسن کہتا ہے کہ لاہور کی جامع مسجد جس کے صحن میں انگریز نے پھانسی کا پھند ابنایا تھا اس میں ایک ایک دن میں اتنی اتنی علماء کو پھانسی دیدی جاتی تھی۔
ٹامسن کہتا ہے کہ لاہور کے چدنیائے راوی میں اتنی اتنی علماء کو بوریوں میں بند کر کے ڈال دیا جاتا اور اوپر سے گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا۔ انہیں شیدائیاں اسلام میں شیخ الہند اور مولانا عبید اللہ سندھی بھی ہیں۔ جن کو آج دنیا اسیر ان مالٹا سے جانتی ہے۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف یا تحریک چلائی کہ عقل انسانی حیران ششدر رہ جاتی ہے جسے تحریک ریشمی رومال سے جانا جاتا ہے۔ شیخ الہند کے ہر دل عزیز شاگرد شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ہیں جنھوں نے خلافت کا نفرنس کراچی میں ایسے وقت میں شرکت کی کہ انہیں
گولی مار دینے کا حکم مل چکا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ حسین احمد نہیں آئے گا مگر لوگوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جب وہ مرد مجاہد کفن بر دوش ہو کر اسٹیج پر آیا اور جلسہ کی صدارت فرمائی۔ اس کا نفرنس میں حضرت نے انگریزوں کو بلبل اور گولیوں کو گل سے تشبیہہ دیتے ہوئے فرمایا: لئے پھرتی ہے بلبل چونچ میں گل شہید ناز کی تربت کہاں ہے حضرت نے یہ شعر پڑھا تو لوگ جوش میں آدھے گھنٹے تک مسلسل نعرے لگاتے رہے۔ اور پھر علماء کی قربانیوں اور اپنے ایک فتوے کی جانب اشارے کرتے ہوئے انگریز کو مخاطب کر کے فرمایا: کھلونا سمجھ کر نہ برباد کرنا کہ ہم بھی کسی کے بنائے ہوئے ہیں فرنگی کی فوجوں میں حرمت کے فتوے کا سردار چڑھ کر بھی گائے ہوئے ہیں وہ شجر آزادی کے خوں دے کے سینچا تو پھل اسکے پکنے کو آئے ہوئے ہیں
محترم سامعین ! مولانا حسین احمد مدنی، ڈاکٹر احمد انصاری، مولانا ابوالکلام آزاد انہیں لوگوں کی سیاسی رہنمائی میں ۱۹۲۰ء میں آخری جنگ ہوئی۔ اس میں بھی پانچ خودلاور شہید ہوئے۔ چودہ ہزار علماء جیل گئے۔ بالآخر ۱۹۴۷ء میں ہندوستان کا آخری گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن رخصت ہو گیا اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دور سے چل رہی آزادی کی تحریک اپنی منزل مراد پانے میں کامیاب ہو گئی۔ اے سر زمین ہندوستان سنا تم نے، یہ ہے ہماری وفاداری کی تاریخ اور اس کی روداد اور آج ہم پورے یقین اور حوصلے کے ساتھ کہتے ہیں کہ آج بھی اگر کوئی ناپاک قدم تیرے سینے پر ڈالے گا تو اس کے لئے پاؤں ہم کاٹ ڈالیں گے اگر کوئی انگشت نمائی کرے گا تو اس کی انگلیوں کو ہم تراش ڈالیں گے۔
اگر کوئی تمھاری عصمت و عفت کو داغدار کرنا چاہے گا تو حسین احمد مدنی بن کر اس کی حفاظت ہم کریں گے۔ اگر کوئی تمہاری عزت و ناموس کو تاراج کرنا چاہے گا تو محمود الحسن بن کر اس کی رکچھا ہم کریں گے ، اگر کوئی للچائی نگاہ سے تمہیں دیکھنے کی کوشش کرے گا تو حاجی امداد اللہ مہاجر مکی بن کر ہم اس کی آنکھیں نکال ڈالیں گے ۔ اگر کوئی تمہاری کود سونی کرنا چاہے گا تو حفظ الرحمن سیوہاروئی بن کر اس کا کلیجہ ہم چاک کر ڈالیں گے ۔ اگر کوئی تم سے تمھاراسنگھار چھینا چاہے گا تو عبید اللہ سندھی بن کر اس کے سر کے دو ٹکڑے کر ڈالیں گے ، اگر کوئی تم سے تمہارا ساون غصب کرنا چاہے گا تو اس کی زندگی کو تباہ و برباد کر ڈالیں گے۔ زخم کھائیں گے مسکرائیں گے اور پھر انقلاب لائیں گے چاہے وہ امر یکہ ہو یا روس، فرانس ہو یا یہ طانیہ ، جنگن ہو یا پاکستان، کسی کی ہمیں پرواہ نہیں۔
ان کہ تو پوں اور ٹینکوں سے ٹکرانے کا حوصلہ ہمارے اندر موجود ہے، تیروں اور تلواروں کے سایے میں ہماری پرورش ہوئی ہے، بارودی شعلوں کا ہم نے خوب تجربہ کیا ہے۔ اینٹی ہتھیاروں کو ہم نے خوب دیکھا ہے۔ بدر کی تاریخ ہمارے پاس ہے، احمد کا معرکہ ہم نے سر کیا ہے، خندق کی پریشانیوں کو ہم نے برداشت کیا ہے، خیبر کے نخلستان پر ہم نے قبضہ کیا ہے، تبوک کے رعب و دبدبے ہمارے پاس ہیں، ارے فتح مکہ بھی تو بہری ہی طاقت وقوت کا نتیجہ ہے۔ صدائیں آج بھی آتی ہیں طاق کسرئی سے ورق ورق ہے مری زندگی کا عبرت خیر اے سرزمین بھارت ! اب ذرا تم اپنے دوسرے لال کی خبر لو کہ اس نے تمھارے ساتھ کیا وفاداری کی ہے۔ اور تم کو کیا دیا ہے۔
یہی تو کہ اس نے تم کو ساری دنیا میں رسوا کیا۔ تمھارے گاندھی کو مار ڈالا، تمھارے گئے میں وطنیت کا پھول ڈالنے والے ہزاروں انسانوں کو ذبح کر ڈالا، تمھارے اور میں پتے کھیلتے قبیلے کو جلا کر راکھ کر ڈالانہ بر طانیہ اور امریکہ کے بزدل ٹیروں سے دوستی قائم کرلینے ظلم و بربریت کا ساون پر سا دیا۔ فتنہ و فساد پھیلا کر تمھارے جسموں کو لہو لہان کیا ۔ مسجدوں اور عید گاہوں کو توڑ کر تمھارا سنگار چھین لیا، تمھاری گنگا میں نہا نہا کر اس کو گندہ اور پراگندہ کر ڈالا۔ تمھاری کو سی اور ستلج کی حفاظت کو ختم کر دیا۔ تمھارے سرمایے کا غلط استعمال کیا۔ کھلے اور گھوٹالے گئے۔ رام کے نام پر رتھ یاترا کا استعمال کیا۔ اور تمھاری پوری گود کو بجائے پھول کے خون سے بھر دیا۔ رام راج کے سایے میں تمھارے قانون کا غلط استعمال کیا، تمھاری جمہوریت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔ ایٹمی ہتھیار جو کہ تمہاری رکچھا کیلئے تھے اس کا نشانہ تمھیں کو بنایا تمہارے ان وفاداروں پر گولیاں چلا ئیں جنہوں نے تمہاری حفاظت کی تھی، ان کے قرآن پر اعتراض کیا۔
ان کے دین و دھرم کا مذاق اڑایا۔ ان کے مسلم پرسنل لاء پر پابندی لگوانے کی کوشش کی۔ آزادی نسواں کی صدا بلند کر کے ان کی ہزاروں ماؤوں اور بہنوں کو بے نقاب کر دیا۔ جنہیں ہے شوق کہ کھیلیں وطن کی عصمت سے انہیں کا دعوی ہے کہ ہندوستان ہمارا ہےاے بھارت کی دھرتی! انصاف اور دیانتداری کے ساتھ بتاؤ کہ وفاداری ہم نے کی ہے، تمھاری عصمت و عفت کی حفاظت ہم نے کی ہے۔ تمھاری عزت و ناموری کی خاطر خون ہم نے بہایا ہے۔ تم کو تمھاری من چاہی خوشیاں ہم نے عطا کی ہے، یہ رام کے پجاری اور راون کے پتر ہم ہی کو دھمکی دے رہے ہیں کہ مسلمانو اہندوستان چھوڑو پاکستان جاؤ ، حالانکہ : چمن کو ہم نے خود اپنے لہو سے سینچا ہے ہمیں بہار پہ دعویٰ ہے اپنے حق کی طرح ایسا لگتا ہے کہ ہم کو بھول گئے ہیں، ہماری قربانیوں کو بھول گئے ہیں اور اپنے کو ہندوستان کا ٹھیکیدار بن کر بیٹھے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہندوستان کس کا ہے اور اس کا ٹھیکیدار کون ہے چمن میں دیکھتے ہیں اب جیت کس کی ہوتی ہے ہیں پھول ایک طرف اور خار ایک طرف دعا کیجئے کہ اللہ تعالٰی ہم سبھی کو وطن کا خادم بنائے اور اکابرین و مخلصین کا پیرو بنائے آمین
واخر دعوانا عن الحمد لله رب العالمين
Leave a Comment Cancel reply
Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment.
- Privacy Policy
یوم آزادی پر مضمون | پندرہ اگست پر مضمون | Essay on Independence Day in Urdu
یوم آزادی پر مضمون | پندرہ اگست پر مضمون |
سال میں کچھ تاریخیں خاص ہوتی ہیں- 15 اگست بھی ایک ایسی ہی خاص تاریخ ہے- بھارت کی تواریخ میں یہ سنہرے حرفوں میں لکھا جانے والا دن ہے1947 کو 15 اگست کی تاریخ کو بھارت آزاد ہوا- بھارت ایک غلام ملک تھا- اس پر انگریز حکومت کرتے تھے لیکن ایک لمبے عرصے تک جدوجہد کے بعد یہ ملک آزاد ہوا- اس لیے ہم لوگ ہر سال پندرہ اگست کو یوم آزادی مناتے ہیں- یہ پورے ملک میں منایا جاتا ہے - اس دن لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں- قومی ترنگا پھہرایا جاتا ہے- قومی ترانے گائے جاتے ہیں- جلوس نکالا جاتا ہے- مختلف جگہوں پر مجلس سجائی جاتی ہے- لیڈر تقریر کرتے ہیں- مٹھائیاں تقسیم کیا جاتا ہے- ثقافتی پروگرام کرائے جاتے ہیں- پورے بھارت میں یوم آزادی کا جشن جوش وخروش سے منایا جاتا ہے-
انڈیا India یومِ آزادی کب مناتا ہے؟
یوم آزادی شاعری اردو میڈیم.
وہ لوگ کسی سے بھی محبت نہیں کرتے
ہے محبت اس وطن سے اپنی مٹی سے ہمیں
اس لیے اپنا کریں گے جان و تن قربان ہم
کہاں ہیں آج وہ شمع وطن کے پروانے
بنے ہیں آج حقیقت انہیں کے افسانے
You may like these posts
Post a comment, top post ad, below post ad, hollywood movies, contact form, total pageviews, مقبول ترین پوسث.
اسم اور اسم کے اقسام اسم کی تعریف ism ki tarif aur qismen
تعلیم کی اہمیت پر مضمون | تعلیمی زوال نے دیا ارتداد کا پتہ
نائب صدر جمہوریہ نے ہندوستانی یونیورسٹیوں کو بین الاقوامی معیار کا بنانے کا مطالبہ کیا
عیدالفطر پر مضمون |عید پر مضمون | Essay on Eid in Urdu
لیلتہ القدر کی فضیلت! رمضان اقوال زریں
پریم چند کی افسانہ نگاری پریم چند کی افسانہ نگاری کا جائزہ | Prem Chand ki Afsana Nigari
افسانے کی تعریف, اجزاء ترکیبی آغاز و ارتقاء Afsane ka Fun
سردی پر مضمون | سردی کے موسم پر مضمون | جاڑا پر مضمون اردو میڈیم میں
محسن نقوی کی حالات زندگی اور ادبی خدمات |Muhsin Naqvi ki Shayari
حروف کی کتنی قسمیں ہیں؟ تعریف کریں| Urdu Letters in Urdu medium
- Jun 2023 15
- May 2023 16
- Apr 2023 27
- Mar 2023 13
- Feb 2023 18
- Jan 2023 29
- Dec 2022 27
- Nov 2022 13
- Oct 2022 16
- Apr 2022 14
- Feb 2022 12
Social Plugin
- Book Review 21
- اردو غزل 10
- اردو قواعد 12
- اردو مضامین 50
- اصناف ادب 6
- اقوال زریں 4
- تعلیم و تربیت 6
- حالات حاضرہ 53
- حمد و نعت 2
- رمضان المبارک 23
- صحت و تندرستی 4
- فارسی قواعد 1
- کارآمد نسخے 5
- مکتوب نگاری 2
Featured Post
بلقیس بانو کو انصاف Bilqis Bano ko Insaaf
Search this blog, all time popular.
Footer Copyright
Contact form.
Youm e Azadi Essay in Urdu
Hello everyone! I hope you are all feeling great. Today, I am so glad because I want to share something very interesting with you. It’s a PDF on Essay in Urdu about a most important day in Pakistan’s history titled “Youm e Azadi”. Let’s delve into why this day is so important and how it brings happiness and unity to the nation.
What is Youm e Azadi (Independence Day)?
Independence Day symbolizes the victory of freedom and independence for a nation. For Pakistanis, it symbolizes the day when they received their right to live life according to their beliefs and values. It’s a day celebrated with pride and gratitude.
Why Youm e Azadi (Independence Day) Matters?
For the people of Pakistan, independence means the opportunity to save their religious, cultural, and social values. It’s a reminder of the sacrifices made by their ancestors to achieve this freedom. Independence Day works as a beacon of hope, inspiring citizens to make an effort for the progress and happiness of their country.
Youm e Azadi Essay in Urdu PDF:
The PDF includes:
- An amazing essay about Youm e Azadi (Independence Day).
How to Download:
To download the PDF about the importance of Youm e Azadi (Independence Day), click on the “Download” button given above.
Conclusion:
In conclusion, Independence Day is not just a date for us on the calendar. It’s a celebration of freedom, unity, and national pride. Let’s celebrate this day with joy and respect, and make a commitment to work tirelessly for the progress and Happiness of Pakistan.
Thanks for reading. I hope you enjoyed this PDF and explored a lot of info about Youm e Azami (Independence Day). So, don’t forget to share it with your friends, family members, and everyone who wants to learn about Youm e Azadi (Independence Day).
More Valuable PDFs:
We have more informative PDFs available, We hope you will enjoy them too :
- Mehnat ki Barkat Essay in Urdu .
- Tandrusti Hazar Naimat hai Essay in Urdu .
- Hazrat Muhammad ﷺ Essay in Urdu .
- Taleem e Niswan Essay in Urdu .
- Mera School Essay in Urdu .
Related Posts
Do Good Have Good Story: A Heartwarming Tale of Kindness
My Aim in Life Essay Quotations: Inspiring Reflections
Leave a comment cancel reply.
Your email address will not be published. Required fields are marked *
Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment.
آسان ٹیکنالوجی
یوم آزادی مضمون.
پاکستان کا یوم آزادی ایک اہم موقع ہے جو برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ 14 اگست 1947 کو پاکستانی قوم ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھری جس نے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کا خاتمہ کیا۔ یہ دن ان لاتعداد افراد کی جدوجہد، قربانیوں اور خوابوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے قیام کے لیے جدوجہد کی۔ پاکستان کا یوم آزادی بہت زیادہ فخر، عکاسی اور جشن کا وقت ہے، کیونکہ یہ ایک خودمختار قوم کی پیدائش اور اس کے لوگوں کی لچک کی علامت ہے۔یوم آزادی مضمون ،آزادی کی تاریخی پس منظر، حصول پاکستان کے لئے قربانیوں اور جدوجہد، ابتدائی مسائل اور یوم آزادی کی جشن پر مشتمل ہے۔
تاریخی پس منظر
پاکستان کے یوم آزادی کے حقیقی جوہر کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کی تشکیل سے متعلق تاریخی تناظر میں غور کرنا چاہیے۔ برصغیر پاک و ہند تقریباً 200 سال تک برطانوی راج کے تحت رہا اور 20ویں صدی کے اوائل تک آزادی کی تحریک نے زور پکڑ لیا۔ تاہم، جیسے جیسے آزادی کی جدوجہد آگے بڑھی، یہ واضح ہو گیا کہ برصغیر کے اندر متنوع مذہبی اور ثقافتی شناختوں کو ایک سوچے سمجھے حل کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے مطالبے نے آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے ساتھ ہی اہمیت حاصل کی، جس کی قیادت محمد علی جناح جیسے بصیرت والے رہنماؤں نے کی۔ مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے جناح کا غیر متزلزل عزم 1940 کی مشہور لاہور قرارداد پر منتج ہوا، جس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد، برطانوی حکومت نے ہندوستان کو آزادی دینے کی ناگزیریت کو محسوس کیا۔ اس طرح 14 اگست 1947 کو پاکستان برطانوی راج سے آزاد ہوا۔ برصغیر نے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا مشاہدہ کیا، مذہبی کشیدگی اور تشدد کے ساتھ۔ چیلنجوں کے باوجود، پاکستان ایک خودمختار ریاست کے طور پر ابھرا، جناح نے اس کے پہلے گورنر جنرل کا کردار سنبھالا۔
یہ بھی پڑھیں: اردو زبان کی اہمیت پر مضمون
جدوجہد اور قربانیاں
آزادی کی طرف سفر مشکل تھا، جس میں بے پناہ جدوجہد اور قربانیاں شامل تھیں۔ ان گنت افراد نے علیحدہ وطن کے خواب کو حاصل کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ پاکستان کا یوم آزادی ان بہادر روحوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی جانوں، گھروں اور معاش کی قربانیاں دیں۔
1947 میں برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تشدد اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی۔ برادریاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں، اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے، ناقابل تصور مشکلات برداشت کر رہے تھے۔ تقسیم کے نشانات ان لوگوں کی یادوں میں نقش ہیں جنہوں نے المناک واقعات کو دیکھا۔ پاکستان کا یوم آزادی ان تاریک وقتوں کو برداشت کرنے والوں کی طرف سے دکھائی جانے والی لچک اور طاقت کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے۔
مزید برآں، آزادی کی جدوجہد صرف جسمانی دائرے تک محدود نہیں تھی۔ دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور کارکنوں نے رائے عامہ کی تشکیل اور عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ اقبال جیسی ممتاز شخصیات جنہوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا اور فیض احمد فیض، جن کی شاعری نے نسلوں کو متاثر کیا، لوگوں کے اجتماعی شعور پر انمٹ نقوش چھوڑے۔
ابتدائی مسائل
پاکستان کی آزادی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں، قوم کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جو اس کی ترقی میں رکاوٹ بنے۔ قوم کی تعمیر کا کام مشکل تھا، کیونکہ پاکستان کو شروع سے ہی اپنا گورننس سسٹم، انفراسٹرکچر اور معاشی استحکام قائم کرنا تھا۔ تقسیم کے دوران بڑے پیمانے پر ہجرت نے سماجی تانے بانے کو درہم برہم کر دیا تھا، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی اور آبادی میں بے گھر ہونے کا احساس پیدا ہوا۔
مزید یہ کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان وسائل اور اثاثوں کی تقسیم نے نئے بننے والے ملک میں معاشی عدم توازن اور ضروری وسائل کی کمی کو جنم دیا۔ مناسب صنعتی انفراسٹرکچر کی کمی، محدود تعلیمی ادارے، اور نوزائیدہ بیوروکریسی نے ملک کی ترقی میں نمایاں رکاوٹیں کھڑی کیں۔
مزید برآں، پاکستان کو اپنی قومی شناخت کا تعین کرنے اور متنوع نسلی، لسانی اور ثقافتی گروہوں کو ایک مربوط مجموعی میں ضم کرنے کے مشکل کام کا سامنا کرنا پڑا۔ صوبوں کے درمیان اتحاد کا احساس پیدا کرنے اور بین الصوبائی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے محتاط توجہ اور کوششوں کی ضرورت ہے۔
بیرونی عوامل جیسے علاقائی تنازعات اور پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات نے پاکستان کو درپیش ابتدائی چیلنجوں میں اضافہ کیا۔ مثال کے طور پر مسئلہ کشمیر ایک اہم نکتہ ہے اور اس کے علاقائی استحکام پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ان ابتدائی مسائل کے باوجود، پاکستان نے رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے لچک اور عزم کا مظاہرہ کیا۔ قوم نے ترقی اور ترقی کے سفر کا آغاز کیا، تدریجی منصوبہ بندی، پالیسی اصلاحات اور مقصد کے اجتماعی احساس کے ذریعے آہستہ آہستہ ان چیلنجوں سے نمٹا۔
پاکستان کو درپیش ابتدائی مسائل کو پہچاننا ضروری ہے کیونکہ انہوں نے ملکی تاریخ کے دھارے کو تشکیل دیا اور اس کے بعد کی پالیسیوں سے آگاہ کیا۔ ان چیلنجوں کو تسلیم کرتے ہوئے اور ان سے سیکھتے ہوئے، پاکستان مزید جامع، خوشحال اور ہم آہنگ معاشرے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
کامیابیاں اور پیشرفت
گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستان نے مختلف شعبوں میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ درپیش چیلنجز کے باوجود قوم نے تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، بنیادی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں قابل ذکر ترقی حاصل کی ہے۔ پاکستان کا یوم آزادی ان کامیابیوں کا جشن مناتا ہے اور ملک کی ترقی اور ترقی کے امکانات کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے۔
تعلیم کے میدان میں، پاکستان نے رسائی اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے کافی کوششیں کی ہیں۔ تعلیمی ادارے پھیل چکے ہیں، جو لاکھوں بچوں کو اپنے خوابوں کی تعاقب کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ حکومت نے ملک کی ترقی کے لیے خواتین کو بااختیار بنانے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے شرح خواندگی کو بڑھانے اور تعلیم میں صنفی فرق کو پر کرنے کے لیے اقدامات نافذ کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاک چین دوستی مضمون
حالیہ برسوں میں پاکستان کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترقی ایک کلیدی توجہ رہی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک ) جیسے بڑے نقل و حمل کے منصوبوں نے نہ صرف ملک کے اندر رابطوں کو بہتر کیا ہے بلکہ علاقائی تجارت اور اقتصادی تعاون کو بھی بڑھایا ہے۔ توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری نے بجلی کی قلت کو کم کیا ہے اور بجلی تک رسائی میں اضافہ کیا ہے، جس سے شہری اور دیہی دونوں علاقوں کو فائدہ پہنچا ہے۔
پاکستان میں دیکھنے میں آنے والی تکنیکی ترقی اس کی جدت طرازی اور انٹرپرینیورشپ کے مرکز کے طور پر اس کی صلاحیت کا ثبوت ہے۔ آئی ٹی انڈسٹری نے ترقی کی ہے، متعدد اسٹارٹ اپس اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کمپنیوں نے عالمی سطح پر پہچان حاصل کی ہے۔ ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دینے اور آئی ٹی کے شعبے کے لیے سازگار حالات فراہم کرنے کے لیے حکومت کی کوششوں نے پاکستان کے ایک ٹیکنالوجی سے متعلق قوم کے طور پر ابھرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان نے فن، ثقافت اور کھیل کے میدان میں بھی نمایاں پیش رفت کی ہے۔ قوم کو اپنے بھرپور ورثے اور متنوع ثقافتی روایات پر فخر ہے۔ پاکستانی فنکاروں، موسیقاروں اور فلم سازوں نے پاکستانی عوام کی صلاحیتوں اور تخلیقی صلاحیتوں کو ظاہر کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل کی ہے۔ کھیلوں کے میدان میں پاکستان نے غیر معمولی کھلاڑی پیدا کیے جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کا نام روشن کیا
یوم آزادی کا جشن
پاکستان کا یوم آزادی بے پناہ قومی فخر اور اتحاد کا موقع ہے۔ ملک بھر میں یہ دن انتہائی جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔ تہواروں میں پرچم کشائی کی تقریبات، پریڈ، ثقافتی پرفارمنس اور آتش بازی شامل ہیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں خصوصی تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں جہاں طلباء تقاریر، شاعری کی تلاوت اور اسکٹس کے ذریعے اپنی حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
پاکستان کے یوم آزادی کی خاص باتوں میں سے ایک صدر کا قوم سے خطاب ہے۔ صدر پاکستان کا قوم سے خطاب، گزشتہ سال کی کامیابیوں کی عکاسی اور مستقبل کے لیے حکومت کے وژن کا خاکہ پیش کرنے پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ خطاب پاکستان کے شہریوں کے لیے تحریک اور ترغیب کا ذریعہ ہے اور ان پر زور دیتا ہے کہ وہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کریں۔
پاکستان کا یوم آزادی لوگوں کے لیے ان ہیروز اور شہدا کے لیے اظہار تشکر کرنے کا ایک موقع ہے جنہوں نے ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ محمد علی جناح اور علامہ اقبال جیسے قومی رہنمائوں کی قبروں پر شہری حاضری دیتے ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یاد کا یہ عمل جرات، قربانی اور لگن کی ان اقدار کو تقویت دیتا ہے جو پاکستان کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔
پاکستان کا یوم آزادی ان نظریات کی عکاسی، جشن اور تجدید عہد کا وقت ہے جو قوم کو تقویت دیتے ہیں۔ یہ دن ماضی کی جدوجہد اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے جبکہ پاکستان کی مختلف شعبوں میں کامیابیوں اور پیش رفت کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے قوم آگے بڑھتی ہے، اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کے ان اصولوں کو یاد رکھنا ضروری ہے جنہوں نے بانیوں کی رہنمائی کی۔
پاکستان کا یوم آزادی ایک یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے کہ آزادی ذمہ داری کے ساتھ آتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے میں امن، رواداری اور شمولیت کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کرنے کا دن ہے۔ اپنے عوام کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، پاکستان زندگی کے تمام شعبوں میں بہترین کارکردگی کے لیے کوششیں جاری رکھ سکتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک خوشحال مستقبل کی تعمیر کر سکتا ہے۔
اس پرمسرت موقع پر، آئیے ہم آزادی کے جذبے کا جشن منائیں، اپنی قوم کے تنوع کی قدر کریں، اور ایک روشن اور زیادہ خوشحال پاکستان کی تشکیل کے لیے مل کر کام کریں۔
یہ بھی پڑھیں: عید الفطر پر مضمون
IMAGES
VIDEO
COMMENTS
یوم آزادی. ہندوستان 15 اگست 1947ء کو آزاد ہوا تھا۔. انگریزوں۔. نے ہندوستان کو لگ بھگ 200 سال تک غلام بنائے رکھا پہلے ہندوستانی آپس میں بٹے ہوئے تھے۔یہاں کے راجے مہاراجے ایک دوسرے کے خلاف تھے۔. وہ آپس میں جھگڑتے رہتے تھے بہت سے راجے عوام پر بھی ظلم کرتے تھے اس لئے عوام بھی بادشاہوں کے خلاف تھے۔.
(یوم آزادی مضمون) جب انگریزوں نے اپنا مکمل تسلط ہندوستان پر جمالیا، تو اسے یہ بات سوجھی ، کہ یکساں سوِل کوڈ کے طور پر پورے ہندوستان کے ہر ہر شہر میں، ہر ہر گاؤں اور آبادی میں عیسائیت کا قانون نافذ کیا جائے ۔. کوئی گھرانہ، کوئی گھر، کوئی بچہ ایسا نہ بچے ، کہ جس کو عیسائیت سے پیار نہ ہو۔.
Youm e Azadi Essay In Urdu - In this article we are going to read essay On Yaum E azadi of pakistan in urdu language, youm e azadi easy essay in urdu,independence day in urdu.
الف یار. یوم آزادی پاکستان: 14 اگست پر اردو تقریر. شیئر کریں. صاحب صدر اور میرے عزیز ہم مکتب ساتھیو! السلام علیکم! ہم آج وطن عزیز کی سالگرہ کے پرمسرت موقع پر یہاں جمع ہوئے ہیں ۔۔۔. اور مجھے جس موضوع پر لب کشائی کرنے کا موقع دیا گیا ہے وہ ہے "جشن آزادی اور ہم"...! صاحب صدر! میرے لیے 14 اگست محض ایک تاریخ نہیں ہے ۔۔۔.
ہم سب کو اپنی ذمے داریوں کو سمجھنا ہوگا اور اپنے ملک کی خدمت کے لیے ہمیشہ تیار رہنا ہوگا۔. ہمیں اپنی نئی نسل کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دینی ہوگی۔. ہمیں اُنہیں ایک بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنا ...
یوم آزادی پر تقریر – Speech on Youm e Azadi in Urdu. ہندوستان کا وفادار کون؟ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلوة والسلام على سيد الْمُرْسَلِينَ وَ عَلَى الِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ أَمَّا بَعْدُ قَالَ النَّبِي صلی الله علیہ وسلم إِنَّمَا الْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ أَوْ كَمَا قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامِ.
انڈیا India یومِ آزادی کب مناتا ہے؟. انڈیا پر غیرملکی حکمران نے برسوں حکومت کیا- قوم کے رہنماؤں کے شہادت اور قربانی کے بدولت ہمارا ملک ہندوستان غلامی سے آزاد ہوا- ہزاروں وطن پرستوں نے وطن کی ...
آج 15 اگست آزادی کا دن ہے، ہم سب یہاں پر آزادی کا جشن منانے کے لیے جمع ہوئے ہیں، ہمارے بزرگوں نے اپنے تن من دھن اور جان کی بازی لگا کر اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا ہے، تب ہم اس شان و ...
It’s a PDF on Essay in Urdu about a most important day in Pakistan’s history titled “Youm e Azadi”. Let’s delve into why this day is so important and how it brings happiness and unity to the nation.
Youm e Azadi Essay in Urdu. یوم آزادی. تاریخی پس منظر. پاکستان کے یوم آزادی کے حقیقی جوہر کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کی تشکیل سے متعلق تاریخی تناظر میں غور کرنا چاہیے۔. برصغیر پاک و ہند تقریباً 200 سال تک برطانوی راج کے تحت رہا اور 20ویں صدی کے اوائل تک آزادی کی تحریک نے زور پکڑ لیا۔.